اللہ تعالیٰ نے بھی اس بچے کے اخلاص کو ایسا قبول کیا کہ بغیر کسی خاص کوشش کے میرا بیٹی کا اس کا اوراس کی بیوی کا جنوری 2009ءمیں سعودی عرب کا ویزہ ہوگیا اور یہاں پہنچتے ہی بیٹی کی شادی طے ہوگئی۔ نکاح مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوا اور رخصتی بھی مدینہ منورہ میں ہوئی
یہ جنوری 1975ءکی بات ہے کہ میرے سسر صاحب مرحوم اپنی سروس مکمل کرکے ریٹائر ہوئے تو انہوں نے کراچی کے ایک اعلیٰ رہائشی علاقے میں ایک ہزار مربع گز کا ایک پلاٹ اپنی اور اہل وعیال کی رہائش کیلئے خریدا‘ تمام ضروری کاموں اور کارروائیوں کے بعد میرے شوہر جناب ارشد حسین صاحب نے اس پر مارچ 1975ءمیں خود کھڑے ہوکر مکان بنوانا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آٹھ مہینے کی قلیل مدت میں رہائش کے قابل مکان بن کر تیار ہوگیا۔ اللہ کی قدرت کہ جس دن تمام گھر والے اس گھرمیں شفٹ ہوئے اس کے عین دوسرے دن میرے یہاں بیٹی کی ولادت ہوئی جس وقت میرے سسر صاحب مجھے مبارکباد دینے ہسپتال آئے تو بہت ہی خوشی اور مسرت سے میرے والدین سے کہا کہ اللہ نے میری بیٹی کا دنیا میں آنے سے پہلے ہی انتظام کردیا۔
بیٹی کی پیدائش کے فوراً بعد ہی میرے شوہر صاحب کوخلیج کے ایک ملک میں ایک بہترین سروس مل گئی اور ہم لوگ وہاں چلے گئے۔ اس کے دوسال بعدتک میرے سسر صاحب کو اس گھر میں رہنا نصیب ہوا۔ پھر 1978 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ مرحوم نہایت ہی ایماندار محبت کرنے والے اور تہجد گزار انسان تھے‘ اب گھر میں والدہ کے ساتھ شوہر کا ایک چھوٹا بھائی اور دو بہنیں رہ گئیں جن کی اب تک شادیاں نہیں ہوئی تھیں۔ 1981ءمیں اللہ کے فضل سے میری ایک نند کی شادی ہوئی اور دوسرے سال 1982ءمیں اللہ نے ہمیں ایک بیٹے سے نوازا اور اسی سال کے آخر میں شوہر صاحب نے اپنے بھائی کی شادی کردی۔ اسی دوران کئی دفعہ مکان کی وراثت کی تقسیم کی بات نکلی مگر کوئی حتمی فیصلہ ہوئے بغیر ہر دفعہ معاملہ ٹل جاتا تھا۔ اللہ کا حکم کہ 1986ءکے آخر میں اچانک ہی میرے دیور کا گاڑی کے ایک حادثے میں انتقال ہوگیا اور وہ ایک کم عمر بیوہ اور دو ننھے ننھے بچے چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگیا‘ اس کے اگلے سال ہم لوگ پاکستان واپس آگئے جہاں ایک غمزدہ مگر صابرہ وشاکرہ بوڑھی ماں اور ایک بہن موجود تھیں‘ اب جوہم پاکستان واپس آئے تو پھر وراثت کی تقسیم کامعاملہ اٹھا‘ میرے شوہر نے اپنی جیب سے بیوہ بھاوج اور یتیم بھتیجوں کو مکان کی مارکیٹ قیمت کے حساب سے ان کا حصہ فوراً ادا کردیا اور ان کا ماہانہ خرچہ بھی مقرر کردیا‘ اب یہ ہوا کہ جب بھی مکان بیچنے کی بات ہوتی‘ میری ساس مرحومہ خاموش ہوجاتیں تو ان کی پانچوں بیٹیوں اور میرے شوہر صاحب نے مکان اپنی والدہ کے نام کردیا‘ اس کے بعد میری ساس بارہ سال زندہ رہیں اور اکثر کہتی تھیں کہ یہ مکان میں بیٹے کے نام کرونگی مگرمیرے شوہر صاحب انکار کردیتے۔ اسی دوران انہوں نے سب سے چھوٹی بہن کی بھی شادی کردی۔ اللہ کا کرنا کہ 1998ءمیں ساس صاحبہ کا بھی انتقال ہوگیا۔ اب اس مکان میں ہم میاں بیوی اور ہمارے پانچ بچے رہنے لگے۔ 13ماہ اپنی روش پر گزرتے رہے‘ ہمارے چار بچوںکی شادیاں اسی گھر سے ہوئیں۔ میرا چھوٹا بیٹا جس کی شادی 2005ءمیں ہوئی۔ محلے کی مسجد میں جاتا تھا وہ وہاں سے کچھ اللہ والوں کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے لگا۔ کچھ ہی عرصہ میں وہ باپ کے پیچھے لگ گیا کہ گھر بیچیں اور پھوپھیوں کو حصہ دیں۔ ہمارا اس گھر میں رہنا جائز نہیں۔ ہمارے اتنے وسائل تو نہیں کہ ہم یہ مکان خود خرید لیں۔ اسی دوران وہ بغیر کسی کو بتائے جائیداد کی خریدوفروخت کرنے والوں کے پاس جانے لگا اور سب سے فروخت کیلئے کہہ دیا۔ اس سے پہلے میری ساس صاحبہ کی زندگی ہی میں ہمارے سسر صاحب کی زرعی زمینیں فروخت کی گئیں اور ایک ایک پیسے کی وراثت بہنوں‘ بیوہ بھاوج بھتیجوں اور ماں کو دی گئی۔
یہ جون 2008ءکی بات ہے کہ ایک دن بیٹا شام کے وقت ہمارے کمرے میں آیا اور کہنے لگا ابا میں نے گھر بیچ دیا ہے یہ رہے بیعانے کے پیسے اور دس فیصد کل مل جائینگے۔ سچی بات ہے کہ ہم دونوں میاں بیوی حیران سے رہ گئے‘ آخر کروڑوں کا گھر خیال تو انسان کو آتا ہی ہے مگر شکر ہے کہ ہم نے کچھ کہا نہیں۔ پھر یہ اٹھ کر ایک پھوپھی کے گھر گیا اور ان کو بتا دیا پھر سب پھوپھیوں کو فون کرکے اطلاع دیدی جس دن مکان کا دس فیصد ملا اس کے ٹھیک اگلے دن ہم لوگ سعودی عرب کیلئے روانہ ہوگئے۔ چھوٹی غیرشادی شدہ بیٹی بھی ساتھ تھی۔ وہاں منجھلے بیٹے نے ویزہ بھیج کر ہمیں بلوایا تھا۔ وہاں پہنچتے ہی ایک ہفتے بعد ہم لوگ پہلے مدینہ منورہ گئے وہاں سے عمرہ کرتے ہوئے بیٹے کے ساتھ اس کے گھر پہنچ گئے۔ پھر ایک مہینہ یہاں رہ کر واپس پاکستان آگئے۔
جس دن ہم لوگ پاکستان پہنچے اس کے ٹھیک بیس دن بعد میرے شوہر صاحب کا دل کا دورہ پڑنے سے اچانک انتقال ہوگیا۔ ادھر ہم سب غم اور صدمے سے چور بچوں کی پھوپھیاں الگ نڈھال کہ ایسا شفیق و خلیق بھائی جس نے عمر بھر سب کو باپ کی سی شفقت دی رخصت ہوگیا۔ ادھر مکان کی قانونی کارروائیوں میں پیچیدگیاں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جن صاحب نے مکان خریدا تھا انہوں نے کہہ دیا کہ میں مکان نہیں خرید رہا کیونکہ میرا بزنس میں بہت بڑا نقصان ہوا ہے اب معاہدے کی رو سے تو یہ تھا کہ انہوں نے جو دس فیصد ہمیں دے دئیے تھے وہ ہمارے تھے مگر میرے بیٹے نے کہا کہ یہ ہمارے لیے جائز نہیں میں دوبارہ کوشش کرتا ہوں اور ان صاحب سے کہہ دیا کہ ہم آپ کے پیسے واپس کرتے ہیں۔ وہ صاحب کہنے لگے آپ مکان بیچیں اگر اس سے کم میں بکے تو اتنے پیسے کاٹ کر مجھے واپس کردیجئے گا۔ اس بات پر بھی بیٹے نے کہا یہ بھی جائز نہیں۔
اب اللہ کا نام لیکر اس نے دوبارہ بھاگ دوڑ شروع کی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے دوبارہ سودا کروا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام معاملات بخیرو عافیت طے پاگئے۔ پوری رقم ملنے پر پہلے صاحب کو ان کا پورا ایڈوانس واپس کیا گیا۔ پھوپھیوں کو ان کے مکمل حصے دئیے گئے۔ اس بچے نے اپنی بہنوں کو ان کے حصے کی پائی پائی ادا کی میرا حصہ مجھے دیا اور بھائیوں کے حصے ان کے سپرد کیے۔ مکان کی چابیاں ان صاحب کو دیں اور اللہ کا شکر کیا۔
اللہ تعالیٰ نے بھی اس بچے کے اخلاص کو ایسا قبول کیا کہ بغیر کسی خاص کوشش کے میرا بیٹی کا اس کا اوراس کی بیوی کا جنوری 2009ءمیں سعودی عرب کا ویزہ ہوگیا اور یہاں پہنچتے ہی بیٹی کی شادی طے ہوگئی۔ نکاح مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوا اور رخصتی بھی مدینہ منورہ میں ہوئی۔ بہن کی شادی کے کوئی دو مہینے بعد ایک دن اچانک مجھ سے کہنے لگا کہ امی چلیں مدینہ منورہ چل کر سیٹل ہوجائیں۔ ایک ہفتہ میں ہم لوگ مدینہ منورہ آگئے جہاں اللہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار کے بالکل قریب ایک بہترین محلے میں اتنا بڑا چار بیڈروم کا گھر ہمیں عطا کیا کہ ہم تو حیران ہیں ہی اب تک جو بھی آتا ہے وہ بھی حیرت کا اظہار کرتا ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کے کرم سے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں میرے دوسرے بچوں کی بھی مستقل حاضری ہورہی ہے۔
مجھے تو یہی لگتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر کی طرف سے ہم سیاہ کاروں پر تقسیم وراثت کا دنیا میں انعام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان‘ عافیت اور ادب کے ساتھ مدینہ منورہ میں رکھے۔ ایمان پر ہم سب اور ہر مسلمان کا خاتمہ بالخیر ہو۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 782
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں